حال ہی میں، پاکستان نے روس سے گندم درآمد کی ہے، جو پھر گوادر بندرگاہ کے ذریعے ملک کے مختلف شہروں کو بھیجی گئی۔ یہ اقدام ملک میں گندم کی بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنے اور اس کی قیمتوں کو مستحکم کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں گندم ایک اہم خوراک ہے، اور اس کی پیداوار آبادی کی طلب کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ اس لیے ملک کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے گندم درآمد کرنا پڑتی ہے۔ اس سلسلے میں حکومت نے مقامی منڈی میں گندم کی ہموار فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں۔
حالیہ پیش رفت میں سے ایک روس سے گندم کی درآمد ہے جو گوادر بندرگاہ کے ذریعے منتقل کی جاتی تھی۔ گوادر بندرگاہ، جو صوبہ بلوچستان میں واقع ہے، ایک گہرے سمندر کی بندرگاہ ہے جو بحیرہ عرب کو براہ راست راستہ فراہم کرتی ہے۔ یہ پاکستان، چین اور دیگر علاقائی ممالک کے لیے تجارت اور تجارت کا ایک اہم گیٹ وے ہے۔
یہ گندم روس سے درآمد کی گئی تھی اور بڑی مقدار میں گوادر بندرگاہ پر پہنچی تھی۔ وہاں سے اسے کراچی، لاہور اور فیصل آباد سمیت ملک کے مختلف شہروں میں پہنچایا گیا۔ اس اقدام سے نہ صرف گندم کی طلب کو پورا کرنے میں مدد ملی ہے بلکہ مقامی منڈی میں اس کی قیمتیں بھی مستحکم ہوئی ہیں۔
روس سے گندم کی درآمد کے پاکستان کے لیے کئی فائدے ہیں۔ سب سے پہلے، یہ گندم کی درآمد کے ذرائع کو متنوع بنانے میں مدد کرتا ہے، جس سے ملک کا کسی ایک ذریعہ پر انحصار کم ہوتا ہے۔ دوسرا، یہ ملک کو گندم کی درآمد کے لیے نئی منڈیوں کی تلاش کا موقع فراہم کرتا ہے۔ آخر میں، یہ مقامی مارکیٹ میں گندم کی قیمتوں کے استحکام کو برقرار رکھنے میں مدد کرتا ہے، جو کہ ملک کی غذائی تحفظ کے لیے بہت اہم ہے۔
تاہم دیگر ممالک سے گندم کی درآمد میں بھی کچھ چیلنجز درپیش ہیں۔ نقل و حمل اور دیگر متعلقہ اخراجات کی وجہ سے گندم کی درآمدی لاگت بڑھ سکتی ہے۔ مزید یہ کہ گندم کا معیار اور معیار ملک کے مطلوبہ معیار پر پورا نہ اترنے کا خطرہ ہے جس کے نتیجے میں صارفین کی صحت کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
آخر میں، روس سے گندم کی حالیہ درآمد اور گوادر بندرگاہ کے ذریعے اس کی نقل و حمل ملک میں گندم کی طلب کو پورا کرنے کی جانب ایک مثبت قدم ہے۔ اس سے گندم کی قیمتوں میں استحکام اور آبادی کے لیے غذائی تحفظ کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی۔ تاہم حکومت کو گندم کے معیار کو یقینی بنانے اور درآمدی لاگت کو کم کرنے کے لیے ضروری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اسے عام آدمی کے لیے مزید سستی بنایا جا سکے۔